" we are sorry bhai”
سبھی بچوں نے یک زبان ہو کر معذرت کی۔
اگر عباس کو اپنی بات کہنے کی بے چینی نا ہوتی تو وہ اپنی بہترین لیڈر شپ کا پورا استحقاق ان پر آزما ڈالتا۔مگر اس نے سب کو معاف کر دیا تھا۔ہاںشہزادے نے سب کو معاف کر دیا تھا۔
اس کے کہنے پر ایک لڑکا اٹھا اور سب کا کھانا آرڈر کر آیا تھا ۔
کاؤنٹر مین نے محبت بھری مسکراہٹ سے عباس کو دیکھ کر ”مطمئن رہو کھانا جلد آ جائے گا “کےانداز میں سرکوخم دیاتھا عباس مطمئن ہو کے بچہ پارٹی کی جانب متوجہ ہوا۔
اسی وقت پیچھے سے کھنکارنےکی آواز سنائی دی ۔
”ہیلو بچہ لوگ ?May I Join You“ ایک جوان لڑکی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
عمر قریبا 16 کے قریب تھی نقوش معصوم اور پرکشش تھے ۔
اف۔۔انہیں کیسے پتہ چلا ۔۔عباس نے بے اختیارآنکھیں میچیں۔
”سوری پھوپھوجان یہ بچوں کی میٹنگ ہے“ عباس  نےسپاٹ انداز میں کہاتو وہ ”اوہ“ کر کے رہ گئی تھی۔اس کی مسکراہٹ ماند پڑ گئی تھی اورنکھری رنگت یاسیت سے پھیکی پڑ     گئی تھی۔
عباس کو ندامت ہوئی۔
”ویل اگر آپ آہی گئی ہیں تو بیٹھ جائیے۔“ اس نے خوش دلی سے کہا تھا ۔کھانا آ چکا تھا ۔
”کیا سچ۔۔؟“ اس کی بھوری آنکھوں کے بجھتے دیپ پھر سے پوری قوت سے ٹمٹمانے لگے تھے۔
باقی سب اپنے کھانے سے انصاف کرنے لگے تھے۔ جب کہ عباس کی پھوپھو آرڈر دے کے کھانے کا انتظار کرنے لگی تھی۔
”سو فرینڈز،مذید وقت ضائع کیے بغیر،میں اپنے ٹاپک کی طرف آتا ہوں“جرارعباس کی پروفیشنل آواز کے ساتھ سبھی بچے جو قریبا کھانا ختم کر چکے تھے۔ اس کی جانب متوجہ ہوئے 
خود عباس نے بھی آئس کریم کا آخری سکوپ لیا تھا اور ٹشو سے ہونٹ تھپ تھپا کر میٹنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔کھانے کے معاملے میں بھی وہ اپنے باپ جیسا تھا۔
جنک فوڈکبھی کبھار شوق کی غرض سے ضرور کھا لیتا تھا۔
مگر روزمرہ میں وہ صرف صحت بخش غذائیں ہی لیتا تھا۔
” آج کا ہمارا ٹاپک ہے ”کیرا “ اپنے انتظار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے بالآخر اندر مچلتے موضوع کو باہر نکالا۔