اف۔۔۔ اس کے بیوقوف انتظار کروانے والے دوست۔۔۔ اس نے ایک مرتبہ پھر بیرونی دروازے کی جانب دیکھا ۔مگربے سود۔۔۔، کتنی خوشی کتنی بے چینی، کتنی بے صبری سے گھر سے نکلا تھا وہ ۔۔کہ جاکر سب کو بتائے گا کہ رات بستر پر لیٹے اسے کتنی زبردست بات سوجھی ہے! مگر سارے جوش اور ایکسائٹمنٹ پر پانی پھرتا نظر آرہا تھا۔ 
               دسمبر کی رگوں کو منجمند کر دینے والی سردی زندگی کے لیے ناقابل برداشت تھی مگر کے این کیوکیفے ٹیریا کے ہیٹرز نے موسم کی ٹھنڈک کو کامیابی سے مات دی تھی ۔اسی لیے اندر کا درجہ حرارت مناسب تھا ۔یہی وجہ تھی کہ تمام طلباء و طاللبات یہیں آکر پڑھتے یا کھاتے پیتے تھے ۔
         اف ۔۔۔اس کے نان سینس بے ذوق دوست۔ اس نے ایک بار پھر انھیں دل ہی دل میں کوسا تھا ۔یہ کیسے دوست تھے۔۔۔اتنا زور دے کر، کنونس کرنے کے باوجود وہ بیوقوف اتنا انتظار کروا رہے تھے انتظار کی گھڑیاں کس قدر کٹھن اور صبر آزما ہوتی ہیں۔۔۔
خاص طور پر تب جب منتظر انتظار کروانے والے کو کچھ ایسا بتانا چاہتا ہوں جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ یہ موضوع دنیا کا سب سے بہترین موضوع ہے۔اسے تو کم از کم یہی لگ رہا تھا۔۔۔ گذشتہ رات سوجھنے والے اس ٹاپک کو،جو شاید اسے وجدان ہوا تھا (ایسا اسے لگتا تھا کیونکہ اس کی نظر میں اس موضوع سے خوبصورت کوئی موضوع تھا ہی نہیں)وہ فورا اپنے دوستوں کو سنا ڈالنا چاہتا تھا۔مگر اف یہ طویل انتظار۔۔۔۔ وہ خود کو ادھر ادھر مگن کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔کےاین کیو کا کیفے کافی وسیع تھا ۔بنفشی رنگ سے مزین دیواریں کیفے کے حسن کو چار چاند لگاتی تھیں اور پھر دیواروں پر اشتہا انگیز اشیائے خوردونوش دلفریب انداز سے ایپاکسی کے(Epoxy) ذریعے3D بنائی گئی تھیں۔جنہیں دیکھ کر کھانے میں ڈوبے ہوئے ہونے کا سا گماں ہوتا تھا۔ وہ بڑے غور سے وہاں انگریزی میں لکھے بیسیوں بار پڑے ہوئے اقوال پڑھ رہا تھا کہ یونہی اس کی نظر نووارد پر پڑ گئی۔ یکایک اس کی مضطرب آنکھوں میں اطمینان در آیا تھا۔جو کہ اس بات کی علامت تھا کہ اس کا انتظار اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ بیرونی دروازے سے ایک سات سالہ یونیفارم میں ملبوس بچی نمودار ہوئی تھی۔